ڈاکٹر شبیر شاہ صاحب

مجھے نہیں پتا کہ ڈاکٹر شاہ صاحب بیول کب اور کیسے آئے…..لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو اس وقت بھی ان کی داڑھی سفید تھی….لیکن چال ڈھال اور پھرتی بالکل کسی جوان آدمی کی…..وہ ڈاکٹر نہیں تھے…..مطلب ایم بی بی ایس نہیں کیا تھا……لیکن ڈاکٹر کی تمام تر ذمہ داریاں بخوبی نبھا لیتے تھے….اس لیے کسی طرح ڈاکٹر سے کم نہیں تھے…..بلکہ کئی ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ان سے اکتسابِ فیض کرتے تھے….شاہ صاحب جس پیشے سے منسلک تھے یہ بڑا نازک پیشہ ہے…..اس میں دن رات ہر قسم اور عمر کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے…….اچھے سے اچھے معاملات اور گندے ترین سکینڈلز…..لیکن شاہ صاحب نے ساری عمر ایسے اجلے انداز میں گزاری کہ کسی کی انگلی تو کیا اٹھتی…..ان کے سامنے نظر یا آواز تک بلند نہ ہو سکی……وہ علاج کو علاج سمجھ کر کرتے تھے…….اور پرانے وقتوں میں بھی سائینسی طریقے کار کو ہی بہتر سمجھتے تھے…….شاہ صاحب کے پیشے سے منسلک افراد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ہومیو یا حکمت کا دورہ بھی پڑ جاتا ہے…..لیکن وہ روز اول سے لیکر آخر تک ایلو پیتھی سے ہی جڑے رہے….جتنی خوبصورت اور صاف زندگی انہوں نے گزاری….میرے علم میں کوئی اور ایسی مثال نہیں…..انسانیت کی جیسی خدمت اور جتنی خاموشی سے انہوں نے کی وہ بھی قابل تقلید ہے….وہ ایک ایسی شخصیت تھے کہ آخری دم تک اپنے اوصاف حمیدہ سے دست بردار نہیں ہوئے……انہیں مجھ جیسوں کی دعاؤں کی ضرورت نہیں…..لیکن اگر ضرورت ہو تو میرے حصے کی جنت بھی ان کے نام

.
ڈاکٹر شاہ صاحب کا نام تو زبانِ زدعام ہے ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اپنی طبی خدمات کی انجام دہی میں انہوں نے کسی قسم کی لغزش نہیں کی۔ان کے دور میں عطائی طبیبوں کی اتنی بھرمار نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ان کی زندگی کا ایک روشن پہلومیرے اور آپ کے لئے اپنی زندگیاں روحانی اطوار پر گامزن کرنے میں ممدومعاون ضرور ثابت ہونگی۔میرے ماموں زاد بھائی مسعود نذیر احمد کی زبانی ہے کہ ہمارے انتہائی محترم و مرّبی استادماسٹر فیض صاحب اور ڈاکٹر شاہ صاحب مرحوم نے کسی کام کے سلسے میں لمبا رختِ سفر باندھا۔ ذریعہ سواری ماسٹر صاحب کی موٹر سائیکل تھی ۔دن بھر جو کام وغیرہ تھے وہ نمٹائے ،اس وقت چونکہ زندگی ہوا کے گھوڑے پہ سوار نہیں ہوئی تھی ایک ٹھہراؤ اور تمّکن سماجی زندگی کا خاصہ تھا۔بحر حال مذکورہ مسافروں نے اپنے اپنے یا مشترکہ کام نمٹائے اور اسی کش مکش میں شام ڈھلنے کے آثار نمایاں ہونے لگے اور واپسی کا ارادہ ہوا۔ واپس آتے ہوئے ماسٹر فیض صاحب(اللہ پاک ان کو عمرِخضری عطا فرمائیں) کے موٹر سائیکل نے بے وفائی کی اورپنکچرہوگیا۔اب واپسی کا ایک بقیہ راستہ موٹرسائیکل کو دھکیلتے اور خود پیدل چلتے طے ہوا۔وقت کی رفتار تیز تھی اور اتنے میں رات کے بارہ بج گئے گھر آتے اور کھانا تناول کرنے اور دیگر سونے کے لوازمات پورے کرنے میں ایک بج گیا۔ڈاکٹر شاہ صاحب کو انہی کے گھرٹھہرنا پڑا۔ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ سوتے ہوئے ابھی ایک آدھ گھنٹہ ہوا ہو گا کہ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اٹھ کر تہجد کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔میں نے سوچا سفر کی تکان اور پیدل سفر کی تکالیف ڈاکٹر صاحب کو رب کے حضور پیش ہونے اور آقاکریم ﷺکا پسندیدہ عمل کو جاری رکھنے میں کسی طور مانع نہ ہوئیں۔(اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین)

Back To Top